Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

کارٹون ‘ بچوں کے اخلاق و کردار کوتباہ کرنے کا ذریعہ

ماہنامہ عبقری - فروری 2014ء

ان کارٹونز کے ذریعے فحش خیالات و رجحانات کو غیرمحسوس طریقے سے عام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ساتھ ہی کثرت سے کارٹونز دیکھنے والے بچوں میں یہ مشاہدات ہوئے ہیں کہ ان میں اکثر بچے کاہلی کا شکار ہوتے ہیں۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: اے ایمان والو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے (التحریم66:6)ہر ماں کی اپنے بچوں سے بے شمار امیدیں وابستہ ہوتی ہیں کہ ان کے بچے بڑے ہوکر ایک کامیاب انسان بنیں اور دنیا وآخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہوں اور اسی مقصد کے تحت اکثر بہنوں کی ساری جدوجہد‘ علم‘ اوقات اور سرمایہ کا اولین مرکز ان کا اپنا گھر ہوتا ہے۔ دنیاوی کامیابی کیلئے دن رات تگ و دو کی جاتی ہے۔ ایک سکول بورڈ یا ڈگری سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کیلئے ان تھک محنت اور کوشش ہوتی ہے جس کی بابت یقینی طور پر یہ کہا بھی نہیں جاسکتا کہ مستقبل میں ان کوششوں سے دنیا میں کامیاب ہوکر رہیں گے؟ غور طلب بات یہ ہے کہ آیا اس سطح کی محنت اور کوشش ہم اس ابدی زندگی کیلئے بھی کرتے ہیں؟ جہاں ہمیں اور ہمارے اہل و عیال کو رہنا ہے جبکہ اس مستقبل کی کامیابی کی ضمانت تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دے رکھی ہے‘ جو یقینی ہے۔رسول اللہ نے فرمایا ’’ہر بچہ دین فطرت پر (مسلم) پیدا ہوتا ہے۔ یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی یا عیسائی بنادیتے ہیں۔‘‘ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کو مدنظر رکھیں اور سوچیں کہ ہمارے بچے دنیا و آخرت میں کس مقام کو پاتے ہیں‘ اس کی ساری ذمہ داری والدین کی تربیت کی بنیاد پر ڈال دی گئی ہے۔ سب سے پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ بچوں کی تربیت کا یہ کام کس عمر سے شروع کیا جائے‘ اس ضمن میں نبی کریم ﷺ کی اس حدیث کو سامنے رکھیں کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہٗ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے اپنے چھوٹے بیٹے کی تربیت کیلئے ہدایات کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا بچے کی عمر کیا ہے؟ اس پر وہ صحابی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ایک سال۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’تم نے بہت دیر کردی‘‘
آج ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ابتدائی دو سال ذہن کی نشوونما کیلئے انتہائی اہم ہیں۔ ان دو سالوں میں بچوں میں پچاس فیصد ذہانت تشکیل پاجاتی ہے۔ اور آٹھ برس کی عمر تک پہنچنے تک اسی فیصد ذہن کی نشوونما مکمل ہوجاتی ہے۔ یعنی دو سال کی عمر کا عرصہ جو کہ بچوں کی سب سے زیادہ ناسمجھی کا دور سمجھا جاتا ہے کہ اب بچوں کے ساتھ سنجیدہ ہوا جاسکتا ہے تب تک تو بچے اپنے ذہنوں میں بہت کچھ اخذ کرچکے ہوتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کی آٹھ برس کی عمر کے اس عرصہ میں ہم ان پر جتنی محنت کریں‘ جتنا زیادہ انہیں سکھاسکیں۔۔۔ ان کی تربیت کرسکیں‘ کردیں۔ پختگی کی عمر میں اس محنت کے نتائج ظاہر ہوں گے۔ انشاء اللہ جس اسلامی کردار کی تشکیل ہم بچوں میں کرنا چاہتے ہیں اس کی بنیاد ہی کلام اللہ ہے۔ بچوں کو تلاوت قرآن‘ آیات کے حفظ‘ ان کا مفہوم اور قرآن کے احکامات پر عمل کرنے کا طریقہ سمجھائیں۔ قرآن کی تلاوت و تفہیم کا شوق ان میں پیدا کریں۔ بچوں کو ساتھ لے کر بیٹھیں اور خود آیات پڑھ کر ان کے معنی سمجھاتی جائیں۔ اخلاقیات کے مختلف پہلوؤں سے انہیں واقف کروائیں اور یہ بات ان کے ذہن نشین کرتی جائیں کہ قرآن کریم تمام زندگی کیلئے ہدایت نامہ ہے جس کی طرف انہیں زندگی کے تمام حالات ومعاملات میں رجوع کرنے کی عادت ہوجائے۔
اخبارات و رسائل: ذہن کو بنانے یا بگاڑنے میں اخبارات و رسائل کا بھی بہت اہم رول ہے۔ بچوں کواچھی‘ صاف ستھری‘ معلوماتی‘ اسلامی کتابوں کے مطالعے کی عادت ڈالیں اور اس عادت کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں۔ بے شمار اور بہترین اُرد و‘ انگریزی کتابیں میسر ہیں جن میں دلکش و دلچسپ انداز میں رنگین تصاویر وغیرہ کےساتھ بچوں میں اسلامی نظریات‘ عقائد و اخلاقیات کی نشوونما کی کوشش کی گئی ہے۔ ذہن کو پراگندہ کرنے والے فحش‘ دین کے خلاف‘ بے بنیاد قیاس آرائیوں پر مشتمل لٹریچر مثلاً ہیری پوٹر اور فیئری ٹیلز وغیرہ سے بچوں کو محفوظ رکھیں اور اگر کبھی اس طرف ان کا التفات ہو تو بہتر انداز میں انہیں سمجھانے اور اس سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔ ان کیلئے کتابیں ایسی ہوں جن سے روح و ذہن کو غذا مل سکے۔ کارٹونز: کارٹونز جنہیں غیرمضر سمجھاجاتا ہے اور جن کے دیکھنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی‘ ان کے انتہائی حیرت انگیز‘ افسوسناک انکشافات ہوتے ہیں۔ والٹ ڈیزنی کے تیار کردہ کارٹونز مکی اینڈ ڈونلڈ اور ٹوم اینڈ جیری وغیرہ جنہیں دیکھ کر بچے تو کیا بڑے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ ان کارٹونز کے ذریعے فحش خیالات و رجحانات کو غیرمحسوس طریقے سے عام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ساتھ ہی کثرت سے کارٹونز دیکھنے والے بچوں میں یہ مشاہدات ہوئے ہیں کہ ان میں اکثر بچے کاہلی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں جسمانی اور تعمیری سرگرمیوں کی طرف سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے اور ساتھ ہی ان کی اسٹڈیز میں sharp decline دیکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی دس برس کی عمر کے اکثر بچوں میں جنسی جذبات کو فروغ دینے میں کارٹونز کے ہیجان انگیز مناظر مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ ہم ذرا سوچیں ’’ان حقائق کو مدنظر رکھیں‘‘ اگر ہم بچوں کو ٹی وی کے ان پروگراموں اور کارٹونز کے دیکھنے کی وقتی طور پر ہی کیوں نہ سہی‘ صرف اس سبب سے اجازت دے دیں کہ اس دوران ہماری کوکنگ اور دوسرے گھریلو کام نمٹ جائیں تو یہ ہماری بہت بڑی نادانی ہوگی‘ ہم اپنے اس رویے سے گویا یہ کہہ رہے ہیں ہم اپنے بچوں کے ذہن واخلاق وکردار کو اتنی اچھی طرح تباہ نہیں کرسکتے جتنا کہ یہ ٹی وی کرسکتا ہے۔
عام طور پر یہ عذر دیا جاتا ہے کہ آج کل کے زمانےمیں بچوں پر زیادہ سختی نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں تھوڑی ’’ڈھیل‘‘ دینی چاہیے ورنہ باہر جاکر جب یہ ٹی وی دیکھتے ہیں یا اپنے دوستوں سے فلموں‘ سیریل وغیرہ پر تبصرے سنتے ہیں تو انہیں محرومی کا احساس ہوتا ہے‘ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر ان چیزوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ لہٰذا گھر میں ہی تھوڑی بہت فلم بینی وغیرہ کی اجازت دے دینی چاہیے۔ ہماری یہ سوچ گویا اس طرح کی سوچ وفکر ہے کہ ہمیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ہمارے بچے گھر سے باہر باآسانی دستیاب زہر کھاسکتے ہیں لہٰذا کیوں نہ ہم تھوڑا زہر انہیں گھر میں ہی میسر کروادیں۔ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام ہر زمانے اور تمام حالات کیلئے مکمل دین ہے۔ اس میں کسی کمی و بیشی کی ذرہ بھر بھی قطعی ضرورت نہیں۔ دوسرے یہ کہ جتنی ڈھیل ہمارے لیے موزوں تھی وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں دے چکے‘ اب اس ڈھیل یا رعایت کے دائرے کو ہم اپنی دانست میں وسیع کرنا چاہیں تو اس کی تباہ کاریوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ہمیں ہمارے بچوں کے ذہنوں‘ ان کے کردار کو اتنا پختہ‘ اتنا مضبوط بنانا ہے کہ گھر کے پاکیزہ ماحول سے باہر اگر کوئی برائی دیکھیں تو اس میں کشش محسوس کرکے اس کی جانب راغب ہونے کی بجائے برائی کو بُرا جان کر نہ صرف خود اس سے بچیں بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روکنے والے بن جائیں۔ بے شک ٹی وی وانٹرنیٹ کا استعمال تعلیم و معلومات اور دین کے بہترین مقاصد کیلئے بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس ضمن میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ ہم بچوں کو ٹی وی یا انٹرنیٹ کے استعمال کی اجازت اپنی موجودگی میں ہی دیں۔ ٹی وی وغیرہ کے مضراثرات سے بچوں کے ذہنوں کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھ کر دیکھیں کہ ان کی تعمیری سرگرمیوں‘ کھیلوں اور خاص طور پر اسلامی نشوونما میں کس قدر حیرت انگیز اضافہ ہوسکتا ہے۔

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 311 reviews.